تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Thursday, February 06, 2014

٭جبرائیل علیہ السلام کا کربلا کی مٹی نبی ﷺ کے پاس لانا



جبرائیل علیہ السلام کا کربلا کی مٹی نبی ﷺ کے پاس لانا
حضرت اُم فضل فرماتی ہیں ایک روز میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں برس رہی تھیں، میں نے پوچھا: میرے ماں باپ قربان آپ کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟

آپ نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے بتایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کرے گی۔ جبرائیل اس جگہ کی سرخ مٹی بھی میرے پاس لائے جہاں انھیں قتل کیا جائے گا، مشکوٰۃ ، بیہقی فی دلائل النبوۃ۔
ضعیف: یہ روایت  دلائل النبوۃ للبیہقی (469/6) میں بحوالہ " محمد بن مصعب : حدثنا الاوزاعی عن شداد بن عبد اللہ" کی سند سے مذکور ہے۔ اس کی سند محمد بن مصعب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوٰۃ المصابیح: 6171)
٭ ابو زرعہ الرازی نے کہا: "محمد بن مصعب اوزاعی وغیرہ سے بہت غلطیاں کرتا ہے" (کتاب الضعفاء لابی زرعۃ الرازی ج 2 ص 400)
٭حافظ ابن حبان نے محمد بن مصعب کی اوزاعی سے ایک روایت کو "باطل" کہا۔ (کتاب المجروحین: 294/2)
٭ابو احمد الحاکم نے کہا: "اس نے اوزاعی سے منکر حدیثٰیں بیان کی ہیں۔ " (تہذیب التہذیب ج 9 ص 461 و لعلہ فی کتاب الکنٰی لأ بی احمد الحاکم)
معلوم ہوا کہ قولِ راجح میں محمد بن مصعب کی اوزاعی سے بھی روایت ضعیف ہی ہوتی ہے،
تنبیہ : امام احمد بن حنبل کا (مسائل ابی داود: 328 بحوالہ موسوعۃ الامام احمد : 317/3 ، 318 ، تاریخ بغداد ج 3 ص 277 و سندہ صحیح) میں محمد بن مصعب کو مقارب (یعنی صحت و تحسین کے قریب) کہنا قول راجح کے مقابلے میں صحیح نہیں، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہی رہتی ہے۔


صحیح روایت:    ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں نے ایک دن دوپہر کو نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل ہے۔ میں کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: یہ حسین رضی اللہ عنہ اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، اسے میں (مقتل گاہ حسین میں) صبح سے اکھٹا کررہا ہوں۔
(ابن عباس نے) فرمایا: پھر میں نے اس (خواب کے) وقت کو یاد رکھا تو معلوم ہوا کہ اسی وقت (اور دن) وہ (حسین رضی اللہ عنہ) شہید ہوئے تھے۔
اسے احمد (المسند:242/1 ح 2165 ، 282/1 ح 2553 ۔۔ کتاب فضائل الصحابۃ: 779/2 ح 1381 ) , طبرانی (الکبیر: 110/3 ح 2822) حاکم (397/4، 398 ح8201) , بیہقی (دلائل النبوۃ :471/6) اور ابن عساکر (تاریخ دمشق: 228/14) نے حماد بن سلمۃ عن عمار بن ابی عمار عن ابن عباس کی سند سے روایت کیا ہے۔
٭ اسے حاکم و ذہبی دونوں نے صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
٭  حافظ ابن کثیر نے کہا: اسے (کتب سبعہ میں سے)صرف احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند قوی ہے (البدایۃ و النھایۃ: 202/8 )
٭شیخ وصی اللہ بن عباس المدنی المکی فرماتے ہیں :
اس کی سند صحیح ہے۔(تحقیق فضائل الصحابۃ: 779/2)