تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Tuesday, February 04, 2014

٭رسول اللہ ﷺ 20 تراویح اور وتر پڑھاتے تھے



رسول اللہ ﷺ بیس رکعات تراویح اور وتر پڑھاتے تھے
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول کریم ﷺ رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 393/2)
موضوع و من گھڑت: مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ روایت "إبراھیم بن عثمان عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس" کی سند کے ساتھ ہے، اس کے راوی ابراھیم کے بارے میں علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں:"امام احمد نے کہا: یہ منکر احادیث بیان کرتا تھا۔ "(نصب الرایہ:53/1)  جبکہ(66/2) میں اس کی ایک حدیث کو ضعیف کہا  اور امام بیہقی کا قول (وہ ضعیف ہے) نقل کیا ہے۔ اسی طرح (153/2) پر ابو الفتح سلیم بن ایوب الرازی الفقیہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ "اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے"
عینی حنفی فرماتے ہیں:"اسے (ابراھیم بن عثمان کو) شعبہ نے کاذب (جھوٹا) کہا ہے اور احمد ، ابن معین ، بخاری اور نسائی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے اور ابن عدی نے اپنی کتاب الکامل میں اس حدیث کو اس شخص کی منکر روایات میں ذکر کیا ہے۔ "(عمدۃ القاری: 128/1)

ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر (333/1) اور عبد الحئی لکھنوی حنفی نے اپنے فتاویٰ (354/1) میں اس حدیث پر جرح کی ہے۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: "اور جو بیس رکعت ہیں تو وہ آپ ﷺ سے ضعیف سند کے ساتھ (مروی) ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ "(العرف الشذی : 166/1) ان کے علاوہ اور بھی دیوبندی علماء نے اس حدیث اور اس کے راوی پر جرحیں کی ہیں ، مثلاً دیکھئے محمد زکریا کاندھلوی دیوبندی تبلیغی کی "اوجز المسالک (397/1)"
ابو ابراہیم بن عثمان پر محدثین کی شدید جروح کیلئے دیکھئے ، میزان الاعتدال (47/1 ،48) تہذ یب التہذیب (144/1 ، 145) وغیرہما۔  علامہ سیوطی نے اس حدیث کے راوی پر شدید جراح کی اور کہا: "یہ حدیث سخت ضعیف ہےاس سے حجت قائم نہیں ہوتی۔" (الحاوی : 347/1) لہٰذا اسے تلقی بلقبول حاصل نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے علماء مثلاً زہبی ، علامہ زیلعی ، علامہ عینی اور ابن ہمام وغیرہم نے تو اسے رد کردیا ہے، یعنی اس روایت کو تلقی بالرد حاصل ہے ،  لہٰذا ان پڑھ لوگوں کو دھوکا دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔